Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر5

وہ فریشں ہو کر باہر آٸی تو علی ڈریسر کے سامنےکھڑا بال بنا رہا تھا اس کو آتا دیکھا اور اچھی طرح خود پر اچھی طرح پرفیوم کا اسپرے کرکے ساٸیڈ پر ہوگیا وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوٸی ڈریسر تک آٸی اور کاجل آنکھوں میں ڈالا اور لاٸٹ پنک کلر کی لپ اسٹک لگاٸی اور دوپٹہ اچھے سے سیٹ کرکے وہ علی کو دیکھ کر بولی چلیں
وہ اسکو غور سےاوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوۓ بولا چلو جلدی وہ دونوں ایک ساتھ نیچے ہال میں آۓ تو سب ان کو دیکھنے لگے اَلسَلامُ عَلَيْكُم انہوں نے سب کو مشترکہ سلام کیا وَعَلَيْكُم السَّلَام ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو میری بیٹی جمیلہ شاہ اس کو پیار کرتے ہوۓ بولی بیٹھو اور ناشتہ کرو پھر اپنے امی ابو کو ملنے چلی جانا تمھارے لیے پریشان ہورہے ہونگے
جی عانی ٹھیک ہے وہ آہستہ سے بولی اب تمھاری طبعیت کیسی ہے بیٹا اقرار شاہ نے اس سے پیار سے پوچھا
جی انکل اب بہتر ہے کافی وہ مسکرا کر بولی بیٹا آج ایک بات کلیر ہوجانی چاہیے اب تم اس گھر کی بہو ہو اور ہماری بیٹی ہو تو اب تم مجھے ابو یا بابا اور جمیلہ کو امی یا ماما بولوگی یہ عانی اور انکل اب نہیں چلے گا کیوں جیملہ جی شاہ صاحب آپ بلکل ٹھیک بول رہے ہیں مٕیں خود بھی یہی بولنے والی تھی جی ٹھیک ہے جیسے آپ خوش بابا وہ بولی جیتی رہو اقرار شاہ اس کےسر پر رکھ کر جانے ک لیے کھڑے ہوۓ
تو وہ بھی تعظیم سے کھڑی ہوٸی
جبکہ علی ان کو دیکھ کر الٹے سیدھے منہ بناتا ہوا ایسے ناشتے میں مصروف تھا جیسے وہ بہت ضروری کام ہو علی اس کو بھی ناشتے کو پوچھ لو مریم نے علی کو ناشتے سے بھرپورانصاف کرتےہوۓ دیکھ کر بولی آپ ہو نا تو کیا فکر آپ کرادوں آپی جانی
سامنے بیٹھے نجف نے علی کو تاسف سے دیکھا اور سر جھٹک کر ہادیہ کی طرف ناشتہ بڑھایا جس کو ا س نے پھیکی سی مسکان سے قبول کیا اور سر جھکا کر کھانے لگی میں رنگ شربتوں کا تو میٹھےگھاٹ کا پانی مجھے خود میں گھول دے تو گانا فل آواز سے گاڑی میں بجا رہا تھا وہ پورے دھیان سے گاڑی چلا رہاتھا کبھی کبھی ایک نگاہ اس پہ بھی ڈالتا مگر وہ بلکل لاپرواہ سی باہر کے نظاروں میں مگن تھی جیسے اس کے علاوہ کوٸی نہ ہو اس گاڑی میں ایک دم سے گاڑی روکنے پر اس نے علی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا محترمہ خالی ہاتھ تو نہیں جاسکتے اب تمھارے گھر کچھ تو لینا پڑھے گا کچھ دیر بعد وہ کافی سامان کے ساتھ آکر بیٹھا اور پھرسے گاڑی چلانے لگا وہ لوگ ہادیہ کے گھر آچکے تھے ۔ سب کو ملنے کے بعداب وہ اپنے بابا کے ساتھ بیٹھی تھی۔ جبکہ علی اس کے بھاٸی کے ساتھ باتوں میں لگ چکا تھا
کیسی طبعیت ہے میری بیٹی کی اب نعمان ملک نے ہادیہ کو اپنے ساتھ لگا کر پوچھا
جی بابا اب میں ٹھیک ہوں آپ فکر نہ کریں وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولی اچھا میں ذرا اماں کو دیکھو پھر بولے گی تم کو بس اپنے بابا کی فکر ہے ہاں جاو اس کو ویسے بھی بہانہ چاہیے ہوتا ہے ہم باپ بیٹی پر بات کرنے کا وہ ہنستے ہوۓ بولے اماں کچھ ہیلپ کراو میں آپ کی وہ کچن میں آکر بولی
تم یہاں کیوں آگی باہربیٹھو پہلے بھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے نہیں اماں میں بلکل ٹھیک ہوں وہ تو بس شادی کی تھکاوٹ تھی
ہادیہ تم خوش ہونا علی کے ساتھ وہ اس کودیکھتے ہوۓ بولی انکے چہرے پر فکر نمایاں تھی اماں آپ بھی نا پتا نہیں کیا کیا سوچتی ہو میں بہت خوش ہوں وہ ان کو گلہ لگا کر بولی
اب جلدی سے کھانا لگاۓ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہیں اچھا تم چلو باہر جا کر بیٹھو اپنے بابا کے ساتھ میں لگاتی ہو ں کھانا
وہ سب کھانا کھارہے تھے ساتھ ساتھ ہادیہ کے بھاٸی کی باتوں پر ہنس رہے خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے کے بعد اب ینگ پارٹی چاۓ انجواے کررہی تھی جبکہ بڑے الگ بیٹھے تھے آپی ایک بات بتاو ہادیہ کی چھوٹی بہن بولی
ہہممم پوچھو آپ کو علی بھاٸی نے کیا دیا منہ دکھاٸی کاگفٹ اس نے ایک دم سے علی کو دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا چھوٹی بعض گفٹ بتانے کے نہیں ہوتے وہ خود تک رکھے جاۓ تو بہ اچھا ہوتا ہے کیوں علی شاہ وہ علی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی جبکہ علی اس کو خاموشی سے دیکھتا رہا سب اوووووو کرتے ہو ۓ ہوٸنگ کرنے لگے
تو وہ طنزٕیہ مسکرا کر اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گی
اب سارے علی کو چھیڑ رہے تھے کچھ دیر بعد ہادیہ کے بڑے بھاٸٕی نے اس کو کمرے میں آرام کے بہانے جانے کابولا تو تھنکس بول کر کھڑا ہوا اور ہادیہ کے کمرے میں آگیا اور دروازہ لاک کیا اب اس کے چہرے پر سختی پھر سے دکھاٸی دے رہی تھی جو باہر مسکراہٹ تھی وہ نجانے کہاں کھو گی تھی وہ واش روم سے باہر آٸٕی تو علٕی کو دیکھا جو ا س کھا جانے والی نظروں سے دکھ رہا تھا
ایک ہی پل میں وہ ہادیہ کے پاس گیا اور ا س کا بازو پکڑا اور موڑکر کمرسے لگا یا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ پکڑا اور پھنکارتے ہوۓ بولا کیا بکواس کی تھی ابھی باہر تم نے ہاں بولو باتکرنے کی تمیز ختم ہوگی ہے تمھاری جانتی ہونا مجھے ایسے رویہ اور لہجہ پسند نہٕیں اور میں نے تمیھں اس شادی سے کتنا روکا تھا یہ تمھارا اپنا فیصلہ تھا تم خود یہ راہ چنی ہے اب کیوں تیور دیکھا رہی جیسے تم بہت ظلم ہوا ہے اس سب کا انتخاب تم نے خود کیا ہے میں نے تمھںیں اس شادی کے انجام سے پہلے ہی باخبرکیا تھا اب کیوں رو رہی ہو بولو چھوڑ مجھے تم میں نے کچھ ایسا نہیں کہا اور میں کوٸی رو نہیں رہی رولا تم کو نہ دیا تو میرا نام ہادیہ نہیں اس نے علی کو دوسرے ہاتھ سے دھکا دیا اور اپنےمنہسے اس کا ہاتھ ہٹایا یہ کیا بار بار تم مجھے کہتے ہو شادی سے میں منع کرتی تم خود نہیں روکے سکتے تھے تمھیں میرا ہی کندھا ملا تھا بندوق چلانےکو
تم ابو کو بولےدیتے نا تم کسی اور کو پسند کرتے ہو اور اسی سے شادی کرنا چاہتے ہو ان سے کیوں نہیں بولا وہاس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوٸے بولی
تم تم یہ سب کیسے جانتی ہو وہ ناسمجھی سے بولا اب زیادہ ڈرامہ مت کرو علی شاہ کل جب تم نجف بھاٸی سے بات کررہے تھے میں نے سب سنا لیا تھا یہی تو تمھاری خوبی ہے تم سن سب لیتی ہو پھر مانتی نہیں ہو وہ چلایا چلو میں تو نہیں مانتی تو اپنے گھروں والوں کومنالیتے کہ جہاں تم چاہتے ہو وہاں تمھاری شادی کردیں وہ دوبد دو بولی ہاں جیسے وہ مان جانتے تمھارے علاوہ ان کو کچھ نظر نہیں آتا بس دنیا میں تم ہی بچی تھی اور ساری لڑکیاں تو میری بہنیں بن گی تھیں جیسے تم لکھی تھی میں نصیب میں جادوگرنی چڑیل کہٕی کی وہ منہ بناتے ہوۓبولا کیا کیا میں جادوگرنی چڑیل اور تم کیا ہو ہاں اکڑو بد مزاج سڑیل اور اور ہاں کھڑوس ہو تم وہ غصے سے بولٕی اب تمھارےمنہ سے میں پھر نہ سنو آٸی سمجھ اس نے پھر سے ہادیہ کا منہ دبوچا اور اس کو دیوار کے ساتھ لگایا اس کے ایک ساٸیڈ اپنا ہاتھ رکھ کر بولا بولو گی کھڑوس کھڑوس کھڑوس جاو جو کرسکتے ہو کرو وہ بے خوفی سے بولی
اس نے اپناہاتھ اٹھایا اور زورسے دیوار پر مارا اور بولا گو ٹوہیل بول کرپیھچے ہوگیا
جبکہ ہادیہ نے ڈر کر آنکھیں بند کرلی کچھ دیر بعد کھولی تو وہ بیڈ پر دوسری طرف منہ کرکے سورہا تھا اوں آیا بڑا مجھے ڈرانے والا کھڑوس اکڑو سڑیل اس کو دل میں نوازتی اور منہ بناتی وہ بھی بیڈ کےدورسرے کنارے پر سمٹ کر سوگی 😜 ماضی چن کتھاگزاری اے رات وے میڈا جی دلیل دے وات وے چن کتھا گزاری اے رات وے وہ نہایت دلجمعی سے گانا گارہا باقی سب اس بامشکل برداشت کررہے تھے ایک وہی تھی جو اس مکمل سپورٹ کررہی تھی
بس کرو اتنا برا تو گارہا ہے اور تم ایسے خوش ہو رہی ہو جیسےعاطف اسلم گا رہا ہو اتنا پاگل پن بھی ٹھیک نہیں ہادیہ کو تالیا ں بجاتا دیکھے کر سحرش جل کر بولٕی تم کیا جانو سحرش مجھے تو اس کی ہر ادا پسند ہے مجھے وہ ہر حال میں اچھا لگتا ہے وہ دھمیہ سا بولی جانتی ہوں تم اس کی مجنوں ہو پتا ہے سب بچپن سے کوٸی نٸی بات کرو جو مجھے نہ پتاہو اب توسب ازبر ہوگیا ہے تم اس کو بے پناہ چاہتی ہووہ تمھارا سب کچھ ہے اس کے بنا تم کچھ بھی نہیں اسکےبغیر تم ادھوری ہو وہ تم کو اور تم اس کو مکمل کرتی ہو وہ بولی تو ہادیہ اس جو دیکھتے ہوۓ ہنسنے لگی ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا
کیا ہوا تم کیوں رورہی ہو کسی نے کچھ کہا ہے تم سے علی نے اس کو اپنی طرف گھمایا اور ٹشو سے سے اس کی آنکھیں صاف کی اور اس سے باز پرس کرنے لگا تم تم تھی نا اس کے پاس ضرور تم نے کچھ بولا ہوگا وہ سحرش کے سر ہوا
پاگل ہو تم میں نے کیا بولنا ہے اس کو ایسا جو یہ روۓ میں دوست ہو اس کی تم جانتے ہو اچھے سے سحرش منماٸ کوٸی ضرورت نہیں اس کو تمھاری دوستی کی جو رولاتی ہے میں ہو نہ اس کا دوست جو کافی ہے اس کی دوستی کے لیے بولو ہادیہ میں ٹھیک بول رہا ہونا وہ ہادیہ کی طرف پلٹا جو منہ کھولے کھڑی تھی بولنے کےلیےپر یہ دونوں اس کو بات کرنےکا موقعہ نہیں دے رہے تھے ہاں ہاں میں تو دشمن ہو نا اس کی جو اس کورولاتی ہوں ایک تم ہی توہمدرد ہو اس کے شٹ اپ گاٸزچپ کروگےتم دونوں اس نے ہاتھ اٹھا کر چلایا تو وہ دونوںاس کو دیکھنےلگےتم دونوں میرے اچھے دوست ہو اورمیں بہت ہنس رہی تھی تو آنکھوں میں پانی آگیا بس اتنی سی بات ہےاور تم بات کو کہاں سے کہاں لے گے ہو
اوکےٹھیک ہے چلو ا ب اس کے ساتھ نہیں بیٹھو گی جہاں میں جاو گا تم ساتھ جاو گی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا سحرش نے تاسف سے سرہلایا اوراٹھ کر چلی گی جبکہ وہ منہ تمھارا کچھنہیں ہوسکتا کہنانہ بھولی اب وہ علی کے ساتھ دریا کے کنارے کھڑی تھی تم نے اچھا نہٕیں ویسے علی سحرش کے ساتھ وہ دوست ہے ہماری اور یہاں ہمارٕے ساتھ انجواۓ کرنے آٸی ہے اورتم نےاس کو ناراض کردیا (وہ لوگ آوٹنگ کے لیے چناب آۓہوۓتھے ) تو اس نے جو کیاوہ ٹھیک تھا کیا علی میں ہنس رہی تھی رو نہٕیں تھی ہادیہ زچ ہوکر بولی جو بھی ہو نمی تو تھی نہ تمھاری آنکھوں میں اس کی وجہ سے وہ اس سے زیادہ کی حقدار تھی تم نے اس کو دوست بنایا ہوا اس وجہ سے میں چپ کرگیا ورنہ اچھے سے بتاتا اس کو تم بھی نہ علی ہادیہ نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاے تو علٕی اس کو ایک ساٸیڈ سے اپنے ساتھ لگایا تو اس نے اس کو پھر جھٹکا تو علی نےایک بار پھر ا کو اپنے ساتھ لگایاتو دونوں ہنسے لگے دور بیٹھے کسی نے ان دونوں کو بڑی ہی جلن سے دیکھا اس کی حسد بھری نگاہوں نے پوری آوٹنگ کے دوران ان دونوں کاپیچھا کیا تھا اس نے ان دونوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لیے پلان بنایا جسے وہ بے خبرتھےاور وہ پلان کو سوچ کر اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا

   1
0 Comments